بعد الحرمین

عرب زبان کے اعتبار سے نہایت فصیح و بلیغ تھے اور عام گفتگو بھی شاعرانہ انداز میں کرتے تھے۔ لہٰذا عہدِ نبوی سے قبل کے زمانے کو مکمل جہالت سے تشبیہ دینا بہت سے مؤرخین اور عربی ادب کے ماہرین کے نزدیک درست نہیں۔ اگر صرف زبان و بیان کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے، لیکن اس ضمن میں مضامین، خیالات اور تصورات کو پیمانہ بنانا مناسب نہیں۔

اسی دور میں سبع المعلقات کو بہت شہرت ملی۔  معلَّقَہ اس عور ت کو کہتے ہیں جو لٹکی ہو ، مطلب یہ کہ نہ اس کا شو ہر اسے طلاق دے اور نہ اس کے ساتھ مراسم رکھے۔ یعنی ایک لٹکی ہوئی  چیز بن جائے۔ اور ایک اور مطلب عمدہ اور نفیس چیز کا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دوسرا مطلب، یعنی نفاست اور عمدگی، غالباً عورت کی نفاست کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول ہوتی تھی۔ تاہم، المعلقات کے مزید کئی معانی عربی زبان و ادب کی کتابوں میں ملتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ سبع المعلقات سے مراد وہ سات شاعر ہیں جن کے شاعرانہ کلام کو بیت اللہ کی فصیلوں سے لٹکایا جاتا تھا۔ یہ کلام سونے کے پانی سے، قیمتی کپڑوں، کھالوں اور دیگر اشیاء پر لکھا جاتا تھا۔ ان عربی قصائد میں شجاعت، عشق، خونریزی، شرافت اور دیگر موضوعات کو بیان کیا گیا تھا۔ آج بھی یہ قصائد عربی ادب اور زبان کے طالب علموں کو بطور مضمون پڑھائے جاتے ہیں، اور یہ کلام ایک عربی ادیب کے نزدیک صرف، نحو، صنائع معنوی و بدائع لفظی، استعارات، مجاز مرسل اور نادر تشبیہات کا مرقع ہیں۔ سبعہ معلقات کے شعراء میں امروء القیس، زہیر بن ابی سلمٰی، عمرو بن کلثوم التغلبی، طرفہ بن عبد البکری، عنترہ بن شداد العبسی، لبید بن ربیعہ العامری اور حارث بن حلزہ الیشکری شامل ہیں۔

ایسے ماحول میں جب قرآن کریم کی آیات نجماً نجماً نازل ہونا شروع ہوئیں، تو اس دور کے اہلِ زبان حیران رہ گئے۔ پہلے پہل انہوں نے اس کلام کو شاعری کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی اور رسالت مآب کو معاذ اللہ شاعر سے تشبیہ دی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ

ترجمہ: اور ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ ان کے لائق تھا، یہ تو نصیحت اور واضح قرآن ہے۔

شاعری میں ایک بنیادی صفت مبالغہ آرائی ہوتی ہے، جبکہ قرآنِ مجید میں مبالغے کا کوئی شائبہ نہیں۔ یہ ایک آفاقی کلام ہے جس کی سچائی میں کوئی شک نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

ترجمہ: یہ کتاب، جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

مشرکینِ مکہ اور اس دور کے عربوں کو اپنی زبان پر بہت فخر تھا۔ قرآن کی آیات نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ ان کے معاشرتی نظام میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ اسلام ان کی روایات کو چیلنج کر رہا تھا، اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے قرآن کے جواب میں کوئی نیا کلام لکھنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اللہ رب العزت نے انہیں للکارا اور سورة البقرہ میں فرمایا:

وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ

ترجمہ: اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔ 

ایک دفعہ لبید بن ربیعہ العامری، جو سبعہ معلقات کے شعراء میں سے تھے، کو کفار مکہ نے بلایا تاکہ وہ قرآن کے مقابلے میں کوئی کلام لکھیں۔ لیکن جب لبید نے سورۃ العصر دیکھی، جو بیت اللہ کی ایک دیوار پر لٹکی ہوئی تھی، تو اس کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہ بے ساختہ پکار اٹھے:

والله ما هذا من كلام البشر

ترجمہ: خدا کی قسم، یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔

اس واقعے کے بعد لبید نے اسلام قبول کیا۔ انہوں نے لمبی عمر پائی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک زندہ رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لبید نے اسلام قبول کرنے کے بعد شاعری تقریباً ترک کر دی، حالانکہ رسالت مآب نے ان کی شاعری کو کئی مواقع پر سراہا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لبید سے شاعری کی فرمائش کی تو انہوں نے جواب میں سورۃ البقرہ اور آل عمران لکھ کر بھیج دی۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شاعری کیوں چھوڑ دی؟ تو انہوں نے جواب دیا:

بعد القرآن

ترجمہ: قرآن کے بعد بھی۔

راقم الحروف کو بھی اپنی مختصر سی زندگی میں مختلف شہروں اور ممالک کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ حال ہی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان دونوں مقدس شہروں کو حرم مکی اور حرم مدنی بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا اب کسی اور شہر کو دیکھنے  کی تمنا ہے، تو میرا جواب لبید کی طرح ہوگا: بعد الحرمین۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *