حافظ صاحب کی یاد میں
اس بار ارادہ کیا تھا کہ مستقل لکھا جائے گا، مگر کام کے بوجھ اور نہ ختم ہونے والی مصروفیات کی وجہ سے لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چھٹی کے روز مصروفیت سے وقت نکال کر حافظ صاحب کی یاد میں لکھنے کا عزم کیا۔
سیالکوٹ پہلی دفعہ ایک انٹرویو دینے کی غرض سے جامعہ سیالکوٹ پہنچا۔ جامعہ کو دیکھ کر گمان ہوا کہ شاید میں غلط جگہ آ گیا ہوں، اور میرا خیال تھا کہ مجھے یہاں نہیں رکنا چاہیے۔ مگر کچھ عوامل ایسے تھے جن کے باعث میں جامعہ سیالکوٹ میں رک گیا۔ میرے رکنے کی بڑی وجہ میرے شعبے کے صدر بھی تھے۔ گزشتہ 15 سال سے مجھے جامعات میں پڑھنے، پڑھانے اور تحقیق کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ میں نے کئی جامعات کے ماحول کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں جس قسم کا ماحول ہے، اس پر مکمل تحقیقاتی یا تجرباتی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مگر لکھنے کا کیا فائدہ، طوطی کی آواز نگار خانے میں کون سنتا ہے۔
میری ایک عادت ہمیشہ سے رہی ہے کہ میں کسی بھی ادارے میں کام کرتے ہوئے اس کے مثبت پہلوؤں پر زیادہ نظر رکھتا ہوں۔ مثلاً جامعہ سیالکوٹ کے کئی شعبہ جات تعلیمی معیار کے اعتبار سے دیگر جامعات سے پیچھے ہیں، مگر ایک نوجوان استاد کے طور پر اس جامعہ میں آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
بنیادی بات جو ایک نوجوان استاد سیکھ سکتا ہے، وہ جامعہ کے انتظامی امور ہیں۔ تدریس کے علاوہ یونیورسٹی کے انتظامی شعبہ جات کس طریقے سے کام انجام دیتے ہیں، کیسے دستاویزات صدر شعبہ کے دفتر سے ہوتے ہوئے صدر جامعہ کے دفتر منظوری کے لیے جاتیں ہیں، یہ تمام باتیں بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنے تدریسی امور۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ میں نے جامعہ سیالکوٹ میں کئی نوجوان اور قابل لوگوں کو مختلف شعبہ جات کے صدر کی حیثیت سے کام کرتے دیکھا۔ یقیناً اگر یہ لوگ کسی بڑی یونیورسٹی میں کام کر رہے ہوتے تو انہیں کسی شعبے کے صدر بننے میں کئی برس لگ جاتے، مگر یہاں انہیں اس کم عمری میں صدر شعبے کا تجربہ مل گیا جو ان کے لیے نعمت سے کم نہیں۔
جامعہ سیالکوٹ میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے دوست بنانے کا موقع ملا۔ ان دوستوں کی فہرست طویل ہے، فرداً فرداً سب کا نام لینا مشکل ہے۔ ان تمام دوستوں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ کچھ دوست ایسے تھے جو عمر اور عہدے میں مجھ سے بڑے تھے، لہذا ان سے گفتگو میں ہمیشہ احترام کا پہلو پیش نظر رہا، اور گفتگو کے موضوعات محدود رہے۔
ہمارے دوستوں کی اس طویل فہرست میں ایک دوست حافظ صاحب ہیں۔ حافظ صاحب ہماری سرائے میں ہم کمرہ تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میرے دونوں ہم کمرہ حافظ تھے، دونوں لیکچرر تھے اور دونوں کا تعلق ایک ہی شعبے سے تھا۔ ایک مدت سے میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے سے منسلک ہوں۔ اپلائیڈ سائنسز کے میدان میں ہمارا شعبہ مشکل شعبوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ شعبہ کسی حسینہ کے مزاج کی طرح پیچیدہ ہے اور اسے سمجھنا آسان نہیں۔
پی ایچ ڈی اور ایم فل کے دوران فراغت کے لمحات کو دوستوں کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتا تھا۔ شنگھائی کی حسین راتوں میں چند قدر دان لوگ، پتے، غزلیں، اور قہوہ ہمارے ہم نفس ہوا کرتے تھے۔ یہی ہماری شام کے لوازمات تھے جن کے دم پر ہم نے الیکٹریکل انجینئرنگ جیسے خشک مضمون میں کامیابی حاصل کی۔
حافظ صاحب کی جانب واپس آتے ہیں۔ سیالکوٹ میں کئی دوست بنے، اور ان کے ساتھ بے تکلفی کا اپنا اپنا درجہ رہا۔ حافظ صاحب مجھ سے عمر میں بڑے تھے، لیکن چند موضوعات جیسے اردو ادب ہمارے مابین مشترک تھے جن پر گفتگو کی جا سکتی تھی۔ حافظ صاحب کی گفتگو اتنی سحر انگیز ہوتی تھی کہ میں خاموش بیٹھ کر سنتا رہتا تھا۔ ان کی بات سننا مجھے پسند تھا، اور جس خوبصورت لحن میں وہ عربی زبان بولتے تھے، وہ ناقابل فراموش تھا۔
آج میں اپنے دوستوں سے دور ہوں، مگر ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات میری زندگی کا انمول اثاثہ ہیں۔ جب جب ان لمحات کو یاد کرتا ہوں، تو ادراک ہوتا ہے کہ سیالکوٹ اور شنگھائی میں رہنے کا فیصلہ درست تھا۔
آخر میں غالب کا ایک شعر:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا