شنگھائی کی حسین شامیں
جنوری 2020 کی ایک سرد شام، شنگھائی کے علاقے من ھینگ میں اپنے فلیٹ سے ہوائی اڈے کی جانب روانہ ہوا۔ شنگھائی کی سرد شام ہمیشہ کی طرح اس دن بھی نہایت لطیف اور جمیل تھی۔ سرد ہوائیں اور ہلکی بارش اس شام کے حسن کو مزید نکھار رہی تھیں ۔ درختوں کی شاخیں جھوم رہی تھیں اور ان سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں، گویا کسی حسین دلربا کے بالوں سے پانی ٹپک کر میرے رخساروں پر آ رہا ہو۔
کیا معلوم تھا کہ یہ خوبصورت شام دوبارہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگی؟ اور کیا معلوم تھا کہ اس حسین شام کے مناظر پھر کبھی نہیں ملیں گے؟ اور یہ بھی کہاں خبر تھی کہ شنگھائی میں یہ ہمارے آخری لمحات ہوں گے۔ اس سے پہلے میں شنگھائی میں تقریباً چھ موسم سرما گزار چکا تھا۔ شنگھائی کا موسم سرما واقعی کسی حسین دلربا کے حسن کی مانند تھا، جس کی تعریف میں شاعر اپنے دیوانوں کے اوراق خیال سے بھر دیتے ہیں۔
ان شاموں کے لوازمات بھی کیا عجیب تھے۔ یخ بستہ سرد ہواؤں میں ٹھنڈی ٹھار آئس کریم، کبھی کبھار ہاٹ چاکلیٹ، اور کبھی حسیناؤں کے جھرمٹ میں شاندار کافی۔ کافی پارلرز کا بھی اپنا ایک رومانوی ماحول تھا، جسے صرف وہاں بیٹھ کر محسوس کیا جا سکتا تھا، بیان نہیں کیا جا سکتا۔
باہر کے علاوہ ہماری سرائے کا ماحول بھی کیا خوب تھا۔ زندہ دل دوستوں کی صحبت زندگی کا احساس دلاتی تھی۔ شام ہوتے ہی عشائیے کے بعد محفلیں جمتی تھیں۔ ہلکی دھنوں پر مشتمل موسیقی کسی اسپیکر سے گونجتی تھی۔ ایک طرف کوئی ساقی محفل میں رندوں کے لیے موسم کے مطابق مشروب کا اہتمام کرتا تھا، اور دو جوڑے بیٹھ کر تاش کھیلتے تھے۔ ایامِ بلوغت میں ہم صرف تماشائی تھے، مگر رفتہ رفتہ ہم بھی اس کھیل کے خطرناک کھلاڑی بن گئے۔
یہ نہیں کہ ہم صرف کمرے اور سرائے تک محدود تھے۔ کئی شامیں ہم لمبی چہل قدمی کر کے بھی گزار لیا کرتے تھے۔ ایک دوست، جو بانی تحریک انصاف کے قبیلے اور ان کے شہر میانوالی سے تعلق رکھتے تھے، ہمارے مزاج اور شوق سے بہت مماثلت رکھتے تھے۔ موصوف تاش، ٹیبل ٹینس، اور بیڈمنٹن کے بہترین کھلاڑی تھے، تو کئی شامیں ان کے ہمراہ ٹیبل ٹینس کھیلتے گزرتی تھیں۔
لیکن اب سب کچھ بدل چکا تھا۔ دوست ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھی کئی دن ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ وہی موسم تھا، وہی شہر تھا، اور وہی ہم تھے، مگر نہ دن ڈھلنے پر دل خوش ہوتا تھا، نہ چہرے کھلتے تھے۔ زندگی بہرحال اپنی رفتار سے گزر رہی تھی۔ ایک ہم نفس تھا، جس کی قربت میں ہم گزرے وقتوں کی یاد سے نکل کر اپنی شامیں کاٹ لیا کرتے تھے۔ پھر ایک شام، وہ ہم نفس بھی جدا ہو گیا۔ اب صرف ایک چیز تھی جس سے ہم دل بہلایا کرتے تھے، اور وہ تھا ہمارا جنون اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کرنے کا۔ اسی دوران جنوری 2020 کا مہینہ آن پہنچا۔ ہم نے چھٹی جانے کا ارادہ کر لیا۔ شنگھائی میں اکیلے موسم سرما کی تعطیلات گزارنا ہمیں مشکل لگا۔ فلائٹ سے چند روز قبل مہنگا ٹکٹ لے لیا۔
جب میں شنگھائی کے پودونگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچا، تو وہی چہل پہل، وہی رونق، اور وہی امیگریشن کی لمبی لائنیں تھیں۔ کسی کو محسوس نہیں ہوا کہ ہم ایک عالمی وبا سے محض چند دن کے فاصلے پر ہیں۔ میں امیگریشن کاؤنٹر کی جانب تیز تیز چل رہا تھا کہ ایک ایئرپورٹ سکیورٹی آفیسر نے مجھے آواز دے کر بلایا اور ایک آلے میں پھونک مارنے کو کہا، شاید یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہم کسی مشروب کے زیر اثر تو نہیں۔ بس شاید یہی ایک عجیب واقعہ اس شام پیش آیا۔
میں نے سری لنکن ایئرلائن کی پرواز لی اور شام کے آخری پہر شنگھائی کو خیر باد کہا۔ خیریت سے کراچی پہنچ گیا، اور روایت کے برخلاف اس بار لینے کوئی نہیں آیا۔ خیر، مسافر لوگ ہیں، زندگی مسافت میں ہی کٹی ہے، تو ہم اکیلے ہی اپنے آبائی علاقے رحیم یار خان کی جانب روانہ ہو گئے۔ پاکستان آنے کے ٹھیک ڈیڑھ ہفتے بعد کووڈ کی وبا نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا، اور یوں جنوری کی وہ شام شنگھائی میں ہماری آخری شام ثابت ہوئی۔ شنگھائی سے ایک دن جدا ہونا ہی تھا۔ وہ شہر میرا دوسرا گھر تھا، جہاں زندگی کے خوبصورت دن گزارے تھے۔ مگر جدائی ایک حقیقت تھی، جس سے انکار ممکن نہ تھا۔ شنگھائی سے جدائی کا ملال نہیں، ملال صرف ایک بات کا ہے، جس کا تذکرہ پھر کبھی۔