گمنام گاؤں کا آخری مزار

گمنام گاؤں کا آخری مزار مشہور صحافی و کالم نگار رؤف کلاسرا کی   ایک تازہ تصنیف ہے۔ اس کتاب میں بس کہانیاں ہیں، کہا نیاں عام لوگوں کی۔ ان کہانیوں کا کوئی کردار ہماری معاشرتی روایات کے مطابق خاص نہیں۔ یہ سب کردار عام ہیں، اِن کرداروں سے لوگ استفادہ ضرور حاصل کرتے ہیں، مگر انہیں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔  

ایسے کردار تقریباً روز  ہی ہم سے ٹکراتے ہیں۔ جیسے گھر میں کام کرنے والا ایک ملازم، کسی دفتر کا چپراسی، مسجد کے باہر بیٹھا کوئی موچی، طلوعِ  سحر سے قبل ہی سڑک پہ جھاڑو پھیرنےوالا خاک روپ، کوئی ترکھان،    سائیکل پہ آنے والا میراکوئی استاد،  کوئی بے بس مریض، دیار غیر میں بیٹھا اپنے ملک کے لیے پریشان شہری، سرحد پہ  بیٹھا ایک سپاہی،کوئی اجنبی راہ گیر، یا پھر کوئی یاروں کا یار اور دوستوں کی کے لیے ہمہ وقت لڑنے کو تیار۔ ان کرداروں کی اچھائی، نیک نیتی اور اپنے اپنے پیشے سے لگن ہم سب پہ عیاں ہوتی ہے۔ لیکن ان میں سےکوئی ایک بھی ہمارا ہیرو نہیں۔ حالانکہ یہ سب میری اور آپ کی طرح کے ساد ہ مزاج  باشندے ہیں۔

 برسبیل تذکرہ میرے شہر رحیم یار خان کا ایک شہری یاد آیا، اس سادہ لوح شخص  نے  دو بار ایم ان اے کا الیکشن لڑا۔ پہلی بار  اس شخص نے چنگچی رکشے پہ بیٹھ کر پورے شہر میں اپنی انتخابی مہم چلائی، کیونکہ اس کا انتخابی نشان مرغی تھا، تو جس گھر جاتا  بطور تحفہ یا رشوت  لوگوں کو ایک مرغی عنایت کرتا۔ جس جگہ  رکتا  اپنی  ایک مجمعہ لگ جاتا ، لوگ اُس کی بے ربط  بے محمل گفتگو سنتے اور لطف اندوز ہوتے۔ جب الیکشن کا  نتیجہ آیا،موصوف کے چند ووٹ نکلے، شاید اسے کے گھر والوں نے بھی اسے ووٹ نہیں دیاتھا۔ دوسری بار پھر اُس سے الیکشن لٹرا، اور اب کے بار پھٹے رکشے پہ  ایک کرسی   رکھی اور  جھاڑو ہاتھ میں تھام  کر انتخابی مہم چلائی، جیسے اپنے تئیں اروند کیجری وال  بننے کی کوشش کر رھا ہو۔ جھاڑو اُن دنوں جمشید دستی کی پارٹی کا انتخابی نشان تھا۔ انتخابی مہم میں عوام  کا وہی  روایتی تماش بینوں والا رویّہ برقرار رہا۔ اور نتیجہ صفر کا صفر۔  

اس کتاب میں لکھی     گئی ہر کہانی ایک مکمل افسانہ اور اپنے تئیں ایک مکمل    ناول ہے۔ یہ کہانیاں انسانی المیوں، قدرت کے جبر، اور انسانی حماقتوں جیسے عوامل سے مزین ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئےکئی جگہ انسان اپنا ضبط کھو بیٹھتا ہے، اور بعض مکامات پر دل تفاخر اور شادانی جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے۔ جب جب موضوعِ تحریر حساس ہو، تب تب جذبات اور خیالات کو لفظی  پیراہن عطا کر نا کھٹن ہو جا تا ہے۔ مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس کتاب کی بیشر کہانیاں انسانی المیوں پہ ہی  مشتمل ہیں، جنہیں لکھنا قطعاً  آسان نہیں۔ مصنف رؤف کلاسرا نے کمال خوبصورتی سے ان کہانیوں کو  تحریر کیا، اور ان کے عام کرداروں اپنے لفظوں کی کاٹ سے خاص بنا یا۔ تمام تحر یروں میں اسی روانی ہے کہ پڑھنے والا شاد شاد ہو اٹھے۔ رؤف کلاسرا کی  یہ کتاب اپنی معنویت اور اندازِ تحریر کی وجہ  نہ صرف پڑھنے والوں کے لیے بلکہ اردو ادب  کے لیےبھی ایک سرمایہ ثابت ہوگی۔  

چلتے چلتے بس ایک آخری بات ۔ہم عجیب لوگ ہیں، ہمار ا کوئی ایسا ہیرو نہیں جو ہم میں سے ہو، ہمارے جیسا ہو۔میں گزشتہ پانچ،چھ سال کے چین کے شہر شنگھائی میں  تعلیمی سلسلے کے باعث مقیم رہا۔اس عرصے میں کئی لوگوں سے ملاقار رہی، کئی غیر ملکی دوست بھی بنائے لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد احساس ہوا ضروری نہیں ایک پڑا  لکھا ، مشہور، یا دولت مند شخص ہی ہمارا ہیرو ہو، یہ کوئی  عام سا کردار بھی ہو سکتا ہے۔  

 میں پی ایچ ڈی کا طالب علم  اورایک محقق  ہوں۔  اس کتاب کا ایک کردار چپراسی فیصل احمد چوہدری ہے  کہ جس کا صاحب 27 برس بعد بھی اسے بھولا نہیں۔ شیخ احسان غنی  جیسا بہادر  جیلر ہے جو سینا تان کر بھارتی قیدیوں کو بچانے  کے لیے کھڑا ہو گیا۔ منو بھائی ، ڈاکٹر ظفر الطاف اور  ڈاکٹر نعیم کلاسرا  جیسےکئی انوکھے کردار   جو ا س کتاب میں لکھے گئے سب کے سب میرے ہیروز ہیں۔ رؤف کلاسرا صاحب آپ کا شکریہ آ پ نے ان کرداروں سے عام و خواص کو متعارف کرایا۔  

اس کتاب کو پڑھیں اور اپنا اندازِ فکر بدلیں۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *