محض چار مثالیں اور وجودِ باری تعالیٰ

قرآن کریم کا پہلے مخاطب جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ وساطتِ رسولﷺ اس کلام کے دوسرے مخاطب اہل عرب ہیں، اور پھر باقی زمانوں کے لوگ۔رسالت مآب ﷺ کی آمد سے قبل سے بھی ہر زمانے کے لوگوں کے لیے انبیاء و رسل  آتے رہے، اور لوگوں کو اللہ رب العزت کی جانب بلاتے رہے۔

 قرآن مجید سے قبل سے تین الہامی کتابیں نازل ہوئیں، تورات، انجیل اور زبور۔ان کتابوں کی حامل اقوام نے ان کی کوئی حفاظت نہیں کی، اوران کتابوں میں اپنی مرضی کے تغیرات بھی کیے۔ بہرحال آدمؑ سے لے کر رسول اللہﷺ کی ذات گرامی تک جتنے نبی، رسول اور الہام آئے ان تمام کا بنیادی مقصد فقط لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے وجود سے روشناس کرانا اور اس کے ہونے پہ یقین دلانا تھا۔

یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایک ایسی ہستی کو مان لینا اور  اس  کے وجود کو تسلیم کر لینا کہ جسے بصارتِ بشر سے روشناس کرانا ممکن  نہ تھا۔ بصیرتِ بشر کو  بھی اس مقام تک لے آنا کارِ کٹھن تھا کہ وہ بن دیکھے ایک ایسی قوت کو مان جائے جو اس کائنات کی خالق ہے، زمان و مکاں کی بندوشوں سے یکسر مبرا ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے، کہ وہ تسلیم کرے کہ دنیا کی ہر شے ایک قوت کی مطیع و فرمابردار ہے۔ ہر شے اس کے ازن کی محتاج ہے۔ کیا بشر، کیا جن، کیا فرشتے، اور حتٰی کہ اس کے اس کے برگزیدہ پیغمبر بھی۔

عام تفہیم کا مالک مسلمان بغیر کسی حیل و حجت اس بات پہ سر تسلیم خم کرتا ہے، کہ اللہ کی ذات اپنا وجود رکھتی ہے، اور اسی کہ قبضہ قدرت میں دنیا کا نظام ہے۔ بحثیت مسلم ہمارے ایمان کا حصہ کہ ہم غیب پہ یقین رکھیں۔ ان تمام باتوں پہ جنھیں بصارتِ بشر دیکھنے کی متحمل نہیں۔ اللہ کی ذات پہ، فرشتوں پہ،موت پہ، موت کے بعد کی زندگی پہ، اور اللہ رب العزت کے بھیجے نبیوں  اور ان کے پیغام پہ۔

محبت میں اتباع دلیل کی محتاج نہیں۔ جب معاملہ اللہ کے رسول کے قول کا ہو، تو پھرہر بات سمعنا و اطعنا پہ ختم ہو جاتی ہے، کہ سنو اور اطاعت کرو۔ جناب رسول نے لوگوں کو اللہ کی ذات سے روشناس کرایا، اس کے بعد دلیل کی کوئی حجت نہیں۔ اور آپؐ کی ذات گرامی سے محبت رکھنے والے ہر شخص نے اللہ کی ذات اور اس کی وحدانیت پہ شہادت دی۔

لیکن یہ تمام باتیں بغیر کسی استدلال کے مان لینا، آسان نہیں۔ خاص طور پہ ان لوگوں لے لیے  جو اپنے تئیں عملی اور علمی دماغ رکھتے ہوں۔ہر بات کو سائنسی انداز میں پرکھتے ہوں۔تو ان کو یہ سمجھانا کہ اللہ کی ذات کا وجود ہے آسان نہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ عہد رسالت ﷺ میں بھی مشرکین میں کئی یہ جانتے تھے کہ آپؐ حق پر رہیں، لیکن اس بات کا اقرار نہیں کرتے تھے۔ 

 ماضی قریب کے تین مشہور سائنسدان بھی خدا کے وجود سے انکاری رہے۔ جن میں سر آئیزک نیوٹن، البرٹ آئینسٹائن، اور سٹفین ہاکنگ شامل ہیں۔ یہ تینوں سائنسدان فزکس کہ شعبہ میں ایک اعلی مقام رکھتے ہیں۔ تینوں میں چند چیزیں مشترک ہیں۔ پہلی چیز خدا کے وجود سے انکا ر ہے۔ اور دوسری اہم یہ کہ تمام تر تحقیقات کہ بنیاد پر یہ ایک نقطہ کے قائل ہیں اور وہ یہ کہ دنیا مخصوص ڈذائین اور قوانین کے ماتحت چل رہی ہے۔

اس بنیادی نقطہ کو پانے کے بعد بھی دنیا کے ارفع دماغ خدا کے وجود سے انکاری ہو جائیں تو پھر انسان کیا کرے۔ انسان جب بغض سے لتھڑا تو یقیناً وہ سورج دیکھ کہ بھی خدا کے وجود سے انکار کرے گا۔اور اسی رویے کے زیر اثر سٹفین ہاکنگ جیسا جیّد کاسمالوجی کا ماہر بھی، دنیا کے ڈذائین کو تسلیم کرے گا، لیکن ڈذائین دیکھ کے بھی ڈذائینر کے وجود کا انکار کرے گا۔ اس کی انکار کی وجہ سائنسی نہیں، بلکہ شخصی بغض ہے۔ اور پھر اللہ کا یہ فرمان بھی کہ ہدایت اسی کا انعام ہے، جسےچاہے عطا کرے۔

گزشتہ مہینے راقم کو سعودی عرب کے شہر الخبر سے مکہ مکرمہ بذریعہ سٹرک جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک ہزار سے زائد کلومیٹر کا سفر حسین مناظر سے مز یّن تھا۔ سفر کی ساری روداد اس تحریر کا موضع نہیں۔ اس پورے سفر میں نما یاں طور چار چیزوں کا مشاہدہ کیا ۔ زمین کی وسعت، پہاڑوں کی خوبصورتی، صحرا میں چلتے اونٹوں کی رونق، اور آسمان پہ چھائے مختلف نظارے۔

تحریر کے آغاز میں لکھا تھا، کہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطب اہل عرب ہیں۔ آپ سعودی عرب کے کسی ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کریں، تو آپ ان چار چیزوں کو مشاہدہ یقیناً کر سکتے ہیں، انہی چار کی مثال دے کر اللہ نے اہل عرب کے سامنے ایک طرح سے سوال رکھا کہ کیا ان کو دیکھ  کربھی میرے وجود سے انکاری ہو؟

سورۃ الغاشیۃ (17-20)

ترجمہ: تو کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب پیدا کئے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئ۔

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ

وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ

وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ

وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ

صرف سادہ سی چند مثالیں ہی کافی ہیں، اللہ کے وجود کو ماننے کےلیے، اور جو نہ مانے اس کے لیے ہر دلیل اور علم ناقص ہے۔ 

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *